Gallery

Gallery
owsum

updates

4/recent/ticker-posts

*ARTICLES*

     

Mujhe Shikayat Hai:

     SAADAT HASAN MANTO

    مجھے شکایت ہے ان لوگوں سے جو اردو زبان کے خادم بن کر ماہانہ،روزپرچہ جاری کرتے ہیں اور اس ’’خدمت‘‘ ہفتہ یا کا اشانہ تہار بن کر لوگوں سے روپیہ وصول کرتے ہیں مگر ان مضمون نگاروں کو ایک پیسہ بھی نہیں دیتے، جن کے خیالات و افکار ان کی آمدن کا موجب ہوتے ہیں۔ مجھے شکایت ہے ان ایڈیٹروں سے جو ایڈیٹر بھی ہیں اور مالک بھی۔ جو مضمون نگاروں کی بدولت چھاپے خانے کے مالک بھی ہیں لیکن جب ایک مضمون کا معاوضہ دینا پڑ جائے تو ان کی روح قبض ہو جاتی ہے۔

    و نگار بناتے ہیں جو ان کے لئے کفن کا کام بھی نہیں دے سکتے۔

    مجھے شکایت ہے۔۔۔ مجھے شکایت ہے۔۔۔ مجھے ہر اس چیز سے شکایت ہے جو ہمارے قلم اور ہماری روزی کے درمیان حائل ہے۔ مجھے اپنے ادب سے شکایت ہے جس کی کنجی صرف چند افراد کے ہاتھ میں دے دی گئی ہے۔ ادب کی کنجی پریس ہے۔ جس پر چند ہوس پرست سرمایہ داروں کا قبضہ ہے۔ چند ایسے تاجروں کا قبضہ ہے جو ادب سے اتنے ہی دور ہیں جتنے کہ وہ تجارت کے نزدیک۔ مجھے اپنے ہم پیشہ ادیبوں سے شکایت ہے جو چند افراد کی ذاتی اغراض اپنے قلم سے پوری کرتے ہیں، جو ان کے جائز اور ناجائز مطالبے پر اپنے دماغ کی قاشیں پیش کر دیتے ہیں۔ مجھے شکایت ہے۔ مجھے اپنے آپ سے بھی شکایت ہے۔ ا س لئے کہ میری آنکھیں بہت دیر کے بعد کھلی ہیں۔ بڑی دیر کے بعد یہ مضمون میں لکھنے بیٹھا ہوں جو آج سے بہت پہلے مجھ لکھ دینا چا ہیئے تھا۔

    ہندی ہندوستانی اور اردو ہندی کے قضیے سے ہمیں کوئی واسطہ نہیں۔ ہم اپنی محنت کے دام چاہتے ہیں۔ مضمون نویسی ہمارا پیشہ ہے، پھر کیا وجہ ہے کہ ہم اس کے ذریعے سے زندہ رہنے کا مطالبہ نہ کریں۔ جو پرچے، جو رسالے، جو اخبار ہماری تحریروں کے دام ادا نہیں کر سکتے بالکل بند ہو جانے چاہئیں۔ ملک کو ان پرچوں کی کوئی ضرورت نہیں اور نہ ادب ہی کو ان کی کوئی ضرورت ہے۔ ملک اور اس کے ادب کو لکھنے والے چاہئیں اور لکھنے والوں کو ایسے اخبار اور ایسے رسالے چاہئیں جو ان کی محنت کا معاوضہ ادا کریں۔ اخبار اور رسالے چھاپنا کوئی رضاکارانہ کام نہیں ہے۔ وہ لوگ جو زبان اور ادب کی خدمت کا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں، میری نظر میں کوئی وقعت نہیں رکھتے۔ زبان اور ادب کی خدمت کاغذ سیاہ کر دینے سے نہیں ہوتی۔ ہر مہینے کاغذوں کا ایک پلندہ پیش کر دینے سے نہیں ہوتی۔ زبان اور ادب کی خدمت ہو سکتی ہے صرف ادیبوں اور زبان دانوں کی حوصلہ افزائی سے اور حوصلہ افزائی صرف ان کی محنت کا معاوضہ ادا کرنے ہی سے ہو سکتی ہے۔

    پچھلے دنوں میں نے اپنا ایک مضمون ہندوستان کے ایک ایسے ماہانہ پرچے کو بھیجا جس کی آمدن سے پچیس لکھنے والوں کی مالی پریشانیاں دور ہو سکتی ہیں۔ مضمون کے ساتھ میں نے ایک خط بھیجا جس میں یہ لکھا تھا کہ اگر آپ اس کا معاوضہ ادا کر سکتے ہوں تو اپنے پرچے میں چھاپیں ورنہ واپس بھیج دیں۔ جیسا کہ مجھے معلوم تھا مضمون واپس بھیج دیا گیا۔ اس کے ساتھ ایڈیٹر صاحب نے جو خط بھیجا اس میں یہ لکھا تھا کہ چونکہ جنگ کے باعث بہت سے اخراجات کی کمی کرنا پڑی ہے۔ ا س لئے رسالے کے مالکوں نے مضامین کی اجرت دینے کا سلسلہ بھی بند کر دیا ہے۔

    یہ خط پڑھ کر میرے جی میں آئی کہ اس کا جواب اس طرح لکھوں، ’’مجھے بہت افسوس ہے کہ جنگ کے باعث آپ کی مالی حالت اتنی کمزور ہو گئی ہے کہ آپ کو مضامین کے معاوضے کا سلسلہ بند کرنا پڑا۔ میری رائے ہے کہ آپ پرچہ بند کر دیں۔ خواہ مخواہ نقصان اٹھانے کی کیا ضرورت ہے۔ جنگ ختم ہو جانے پر جب حالات موافق ہو جائیں تو پھر سے اپنا پرچہ جاری فرما دیجئے گا۔‘‘

    میں پھر کہتا ہوں کہ ہمارے یہاں ایسے پرچوں کا وجود نہیں ہونا چاہیئے جو معاوضہ ادا کرتے وقت اس قسم کے عذر لنگ پیش کریں۔ آخر ملک کو ایسے پرچوں کی ضرورت ہی کیا ہے۔ میری رائے ہے کہ کسی نہ کسی طرح ان کی اشاعت بالکل بند کر دی جائے تاکہ دوسرے پرچے جو ادیبوں کو ان کی محنت کا حق ادا کرتے ہیں، زیادہ پھول پھل سکیں۔ ہمارے ادب کو دس ہزار اخباروں اور رسالوں کی ضرورت نہیں۔ صرف دس کی ضرورت ہے جو ہماری ضروریات پوری کریں۔ وہ پرچے، وہ رسالے، وہ اخبار جو ہماری ضروریات پوری نہیں کرتے، آخر کس مرض کی دوا ہیں۔ ہم ان کی زندگی کے لئےکیوں جدوجہد کریں۔ جب وہ زندگی میں ہمارے ممد و معاون نہیں ہوتے۔

    مضمون نگار دماغی عیاش نہیں۔ افسانہ نگار خیراتی ہسپتال نہیں ہیں۔ ہم لوگوں کے دماغ لنگر خانے نہیں ہیں۔ ہم اس زمانے کو اور اس کی یاد تک کو ماضی کے تاریک گڑھوں میں ہمیشہ کے لئے دفن کر دینا چاہتے ہیں، جب شاعر بھک منگے ہوتے تھے اور جب صرف وہی لوگ عیاشی کے طور پر مضمون نگاری کیا کرتے تھے جن کے پاس کھانے کو کافی ہوتا تھا۔ ہم نئے زمانے، نئے نظام کے پیغامبر ہیں۔ ہم ماضی کے کھنڈروں پر مستقبل کی دیواریں استوار کرنے والے معمار ہیں۔ ہمیں کچھ کرنا ہے۔ ہمارے راستے میں مشکلات حائل نہیں ہونی چاہئیں۔ ہم گرسنہ شکم اور برہنہ پا نہیں رہ سکتے۔ ہمیں اپنے قلم سے روزی کمانا ہے اور ہم اس ذریعے سے روزی کما کر رہیں گے۔ یہ ہر گز نہیں ہو سکتا کہ ہم اور ہمارے بال بچے فاقے مریں اور جن اخباروں اور رسالوں میں ہمارے مضامین چھپتے ہیں، ان کے مالک خوشحال رہیں۔

    ہم ادیب ہیں، بھڑ بھونجے نہیں۔ ہم افسانہ نگار ہیں، کنجڑے نہیں، ہم شاعر ہیں بھنگی نہیں۔ ہمارے ساتھ دنیا کو امتیازی سلوک روا رکھنا ہوگا۔ ہم لوگوں کو مجبور کریں گے کہ وہ ہمارا احترام کریں۔ ہم تاروں سے باتیں کرنے والے ہیں۔ ہم ایسی باتیں ہر گز نہیں سنیں گے جو ہمیں پستی کی طرف لے جائیں۔ ہمارا رتبہ ہر لحاظ سے ان لوگوں سے بہتر ہے جو صرف روپے گننے کا کام جانتے ہیں۔ ہم ہر جہت سے ان لوگوں کے مقابلے میں ارفع و اعلیٰ ہیں جو نہ بنا سکتے ہیں اور نہ ڈھا سکتے ہیں۔ ہم ادیب، ہم شاعر، ہم افسانہ نگار بنا بھی سکتے ہیں اور ڈھا بھی سکتے ہیں۔ ہمارے ہاتھ میں قلم ہے، جو قوموں کی سوئی ہوئی تقدیریں جگا سکتا ہے جو ایک ایک جنبش کے ساتھ انقلاب برپا کر سکتا ہے۔

    ہماری عظمت ہماری بزرگی تسلیم کرنا ہوگی۔ ان تمام لوگوں کو ماننا ہوگی جو ہمارے ساتھ مل جل کر زندگی بسر کرتے ہیں۔ ہمارے لئے ہندوستانیوں کو ایک خاص جگہ بنانا ہوگی۔ جہاں ہم آرام و اطمینان سے اپنا کام کر سکیں۔ ہم اپنی ضروریات زندگی کی تکمیل چاہتے ہیں۔ ہمیں تاج و تخت کی خواہش نہیں۔ ہم کشکول لے کر پھرنے والے انسان نہیں ہیں۔ ہم زر و دولت کے انبار نہیں چاہتے۔ ہم گداگر نہیں ہیں۔ ہم انسانوں کی سی زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں۔ اس لئے کہ ہم انسان ہیں۔

    ہم پر وہ دروازے کیوں بند کر دیے جاتے ہیں، جن میں سے گزر کر ہمیں آگے بڑھنا ہے۔ ان دروازوں کو مقفل کر کے پھر یہ رونا کیوں رویا جاتا ہے، ’’ہمارا ادب بہت پیچھے ہے۔ اس میں ترقی کیوں نہیں ہوتی۔ لکھنے والے بہت کم ہیں وغیرہ وغیرہ۔‘‘ لکھنے والے کیسے پیدا ہوں گے۔ ادب میں کیسے ترقی ہوگی، جب ہر ایک صوبے سے سیکڑوں پرچے شائع ہوتے ہیں۔ ان میں سے ہر ایک کے ماتھے پر ہمیں خدمت ادب کا لیبل نظر آتا ہے۔ یہ پرچے پرچے نہیں ہیں، کاغذی کشکول ہیں جن میں ہم سے اور دوسرے لوگوں سے بھیک ڈالنے کے لئے کہا جاتا ہے ایسے کشکول نہیں ہونے چاہئیں۔ ان کے وجود سے ہمارا ادب بالکل پاک ہو جانا چاہیئے آج ہی، ابھی ابھی!

    میں اپنے ان تمام ہم پیشہ بھائیوں سے جن میں خودداری و خود اعتمادی کا مادہ موجود ہے، کہوں گا کہ وہ ان تمام پرچوں سے اپنا قطع تعلق کر لیں جو ان کی محنت کے دام ادا نہیں کرتے۔ آج ہی ہمیں ان تمام پرچوں، رسالوں اور اخباروں کے وجود سے انکار کر دینا چاہیئے، جومفت خور ہیں۔ ان رسالوں اور مقبروں میں کیا فرق ہے۔ جہاں کے مجاور ہر وقت جھولی پھیلائے نذر نیاز مانگتے رہتے ہیں۔ ہمیں نہ ایسے مقبروں کی ضرورت ہے اور نہ ایسے رسالوں اور اخباروں کی جن سے ہمیں کوئی فائدہ نہیں پہنچتا۔

    پریس کو، جہاں یہ پلندے چھپتے ہیں، روپیہ ادا کیا جاتا ہے۔ کاتبوں کو جو لکھائی کرتے ہیں معاوضہ ادا کیا جاتا ہے۔ ان مزدوروں کو ہر روز ہر ہفتے یا ہر مہینے مزدوری ادا کی جاتی ہے جو ان کو اٹھا کر ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جاتے ہیں، مگر مضمون نگاروں کو ان کی محنت کے دام ادا نہیں کئے جاتے۔ کس قدر تعجب کی بات ہے۔ کیا مضمون نگار کی ضروریات زندگی نہیں؟ کیا اسے بھوک نہیں لگتی؟ کیا اسے پہننے کو کپڑے نہیں چاہئیں؟ کیا وہ انسان نہیں ہے؟ اگر وہ انسان ہے تو پھر اس سے حیوانوں کا سا سلوک کیوں روا رکھا جاتا ہے۔

    میں بغاوت چاہتا ہوں۔ ہر اس فرد کے خلاف بغاوت چاہتا ہوں جو ہم سے محنت کراتا ہے مگر اس کے دام ادا نہیں کرتا۔ میں بغاوت چاہتا ہوں۔ زبردست بغاوت چاہتا ہوں کہ ہمارے ادب سے یہ بدعت بالکل دور ہو جائے، جس کی موجودگی میں مضمون نگار اپنی محنت کا معاوضہ طلب کرتے جھجکتا ہے۔ میں اس حجاب کے خلاف بغاوت چاہتا ہوں جو سرمایہ دار طبقے نے ہم لوگوں پر ایک زمانے سے اپنے فائدے کے لئے طاری کر رکھا ہے۔ میں اس احساس کے خلاف بغاوت چاہتا ہوں، جو اس حجاب نے ہمارے دلوں میں پیدا کر دیا ہے۔ اس احساس کے خلاف جس کی موجودگی میں اکثر مضمون نگار یہ خیال کرتے ہیں کہ مضمون نگاری محض شغل ہے، ایسا شغل جو محض بے کار آدمیوں کا کام ہے۔

    ادب کی رونق ہمارے دم سے ہے۔ ان لوگوں کے دم سے نہیں ہے جن کے پاس چھاپنے کی مشینیں، سیاہی اور ان گنت کاغذ ہیں۔ لٹریچر کا دیا ہمارے ہی دماغ کے روغن سے جلتا ہے۔ چاندی اور سونے سے اس کی بتی روشن نہیں ہو سکتی۔ اگر آج ہم۔۔۔ ہم شاعر، افسانہ نگار اور مقالہ نویس اپنے قلم ہاتھ سے رکھ دیں تو کاغذوں کی پیشانیاں تلک سے محروم رہیں۔ اگر ہمیں مضمون نگاری کو ایک معزز پیشہ بنانا ہے تو ہمیں اپنا احترام مخالفین کی آنکھوں میں پیدا کرنا ہے۔ ہمیں لڑنا ہوگا۔ ہمیں ایک زبردست جنگ کرنا ہوگی۔ ہمیں ہڑتال کرنا ہوگی۔ اپنے خیالات و افکار کی ہڑتال کرنا ہوگی۔ ہمیں اس وقت تک اپنے جذبات و محسوسات اپنے اندر دبا کر رکھنا ہوں گے جب تک پیاس کے مارے کاغذ کی زبان باہر لٹک نہ پڑے۔ بھوک کی شدت سے اس کا برا حال نہ ہو جائے۔

    آؤ ہم اپنا ایک محاذ بنائیں۔ سب اکٹھے ہو جائیں، اگر ہم سب اپنے قلم ایک جگہ پر رکھ دیں تو ایک پہاڑ کھڑا ہو سکتا ہے۔ کیوں نہ ہم تعاون سے اس بدعت کے خلاف آواز بلند کریں، جو ہمارے وقار پر ایک بدنما دھبا ہے۔ ہم سوسائٹی میں اپنے لئے جگہ چاہتے ہیں اور بس ہم یہ چاتے ہیں کہ ہماری محنت کو معاوضے کے قابل سمجھا جائے اور ہمیں وہ تمام سہولتیں بہم پہنچائی جائیں جن کے ہم حق دار ہیں۔ ہمارا مطالبہ جائز ہے۔ پھر کیوں نہ ہم آج ہی سے اپنے حقوق مانگنا شروع کر دیں۔ آخر کب تک ادیب ایک ناکارہ آدمی سمجھا جائے گا۔ کب تک شاعر کو ایک گپیں ہانکنے والا متصور کیا جائے گا، کب تک ہمارے لٹریچر پر چند خودغرض اور ہوس پرست لوگوں کی حکمرانی رہے گی۔ کب تک؟

    جیسا کہ میں اوپر کہہ چکا ہوں مجھے شکایت ہے اپنے مضمون نگار بھائیوں سے، جن کی تحریریں دوسروں کی روزی کا ذریعہ بنتی ہیں، مگر ان کے لئے ایک دھیلا بھی پیدا نہیں کرتیں، وہ مضمون لکھتے ہیں کسی اور حیلے سے پیٹ بھر کر، وہ شعر لکھتے ہیں کسی دوسرے کنویں سے اپنی پیاس بجھا کر، وہ مقالے لکھتے ہیں مگر اپنی ستر پوشی کا سامان حاصل کرنے کے لئے انہیں کوئی اور ہی کام کرنا پڑتا ہے۔ ستم بالائے ستم یہ ہے کہ ان کے مضمون، ان کے شعر، ان کے مقالے ان لوگوں کی بھوک اور پیاس بجھاتے ہیں جو صرف انہیں کاغذ کے چند پرزوں پر چھاپ دیتے ہیں، ان کی تحریریں دوسروں کا تن ڈھانکتی ہیں، مگر ان کے لئے کپڑے کی ایک چندی بھی حاصل نہیں کر سکتیں۔ ایسا نہیں ہونا چاہیئے۔ ایسا نہیں ہوگا۔

    ہمیں حالات کو بدلنا ہے اور ہم حالات کو بدل کر رہیں گے۔ ایک انقلاب برپا ہونا چاہیئے، جو حالات کو پلٹ دے۔ ادیب اپنے قلم سے روزی کمائے۔ سقفِ نیلوفری کے نیچے وہ بھی دوسرے آدمیوں کی طرح خدا کی نعمتوں کو استعمال کریں اور لوگ اس کے پیشے کو احترام کی نظروں سے دیکھیں۔ زمانہ کروٹ بدل رہا ہے۔ آؤ ہم بھی کروٹ بدلیں اور ایک کروٹ میں وہ تمام بدعتیں جھٹک دیں جو ہمارے ساتھ چپکا دی گئی ہیں۔ آؤ ہم ایک شان سے زندہ رہیں اور شان سے مریں۔ ہماری زندگی اور ہماری موت میں ایک امتیازی شان ہونا چاہیئے۔ ا س لئے کہ ہم شاندار ہیں، ہم ادیب ہیں، شاعر ہیں، افسانہ نگار ہیں، ہمارے ہاتھ میں قلم ہے جو تلوار سے زیادہ طاقتور ہے۔

    حضرات! حالات بہت نازک ہو گئے ہیں۔ اب تو یہاں تک نوبت پہنچ گئی ہے کہ بعض اہل قلم لوگوں نے دکانیں کھول لی ہیں۔ جہاں وہ خریداروں کے ہاتھ غزلیں، مضمون اور افسانے بیچتے ہیں۔ آٹھ آٹھ آنے میں غزل بیچی جا رہی ہے۔ بیس بیس روپے میں ناول لکھنے کو لوگ تیار ہیں۔ پانچ روپے افسانے کا نرخ ہے۔

    ایسی کئی"shops" کا اشتہار آپ نے پرچوں میں پڑھا ہوگا۔ ان اشتہاروں کا معاوضہ یہ لوگ مضامین اور غزلوں کی صورت میں ادا کرتے ہیں۔ یہ صرف ا س لئے ہو رہا ہے کہ ہم لوگ غافل ہیں۔ ہم نے اپنی پوزیشن خود گرا رکھی ہے۔ لیکن حالات ایک منٹ میں سدھر سکتے ہیں۔ کے عرصے میں ہم اپنی کھوئی ہوئی عظمت حاصل کر سکتے ہیں۔ بہت ہی کم عرصے میں ہم اپنے لئے ایک خوبصورت دنیا بنا سکتے ہیں۔ جس میں ہم کو ہر طرح کی آزادی ہوگی۔ کیا ارادہ ہے آپ کا؟

    میں کہتا ہوں اٹھو۔ اپنے سوئے ہوئے بھائیوں کو جھنجوڑو۔ ان کے کانوں تک میرا پیغام پہنچاؤ۔ ایک جھنڈے تلے جمع ہو جاؤ۔ اپنا ایک محاذ بناؤ اور جنگ شروع کر دو۔ اپنے قلموں کو کچھ عرصے کے لئے روشنائی سے دور رکھو۔ کاغذ کی دنیا تمہارے قدموں پر سر رکھ دے گی۔



                                         Andheri Raat ka Musafir

         ASRARUL HAQ MAJAZ

     

                                                   "Nazam"

    javānī añdherī raat hai zulmat tūfāñ hai
    mirī rāhoñ se nūr-e-māh-o-anjum tak gurezāñ haḳhudā soyā huā hai ahrman mahshar-ba-dāmāñ haimagar maiñ apnī manzil taraf baḌhtā jaatā hai
    ġham o hirmāñ yūrish hai masā.ib ghaTā.eñ haiñ
    junūñ fitna-ḳhezī husn ḳhūnīñ adā.eñ haiñ
    baḌī pur-zor āñdhī hai baḌī kāfir balā.eñ haiñ
    magar maiñ apnī manzil taraf baḌhtā jaatā huuñ
    fazā meñ maut ke tārīk saa.e thartharāte haiñ
    havā ke sard jhoñke qalb par ḳhanjar chalāte haiñ
    guzishta ishratoñ ke ḳhvāb ā.īna dikhāte haiñ
    magar maiñ apnī manzil taraf baḌhtā jaatā huuñ
    zamīñ chīñ-bar-jabīñ hai āsmāñ taḳhrīb par maa.il
    rafīqān-e-safar meñ koī bismil hai koī ghā.el
    ta.āqub meñ luTere haiñ chaTāneñ raah meñ haa.el
    magar maiñ apnī manzil taraf baḌhtā jaatā huuñ
    ufuq par zindagī ke lashkar-e-zulmat Derā hai
    havādis ke qayāmat-ḳhez tūfānoñ ne gherā hai
    jahāñ tak dekh saktā huuñ añdherā añdherā hai
    magar maiñ apnī manzil taraf baḌhtā jaatā huuñ
    charāġh-e-dair fānūs-e-haram qindīl-e-rahbānī
    ye sab haiñ muddatoñ se be-niyāz-e-nūr-e-irfānī
    na nāqūs-e-barhaman hai na āhañg-e-hudā-ḳhvānī
    magar maiñ apnī manzil taraf baḌhtā jaatā huuñ
    talātum-ḳhez dariyā aag ke maidān haa.el haiñ
    garajtī āñdhiyāñ biphre hue tūfān haa.el haiñ
    tabāhī ke farishte jabr ke shaitān haa.el haiñ
    magar maiñ apnī manzil taraf baḌhtā jaatā huuñ
    fazā meñ sho.ala-afshāñ dev-e-istibdād ḳhanjar
    siyāsat sanāneñ ahl-e-zar ke ḳhūñ-chakāñ tevar
    fareb-e-be-ḳhudī dete hue billor ke sāġhar
    magar maiñ apnī manzil taraf baḌhtā jaatā huuñ
    badī par bārish-e-lutf-o-karam nekī pe ta.azīreñ
    javānī ke hasīñ ḳhvāboñ haibatnāk ta.abīreñ
    nukīlī tez sañgīneñ haiñ ḳhūñ-āshām shamshīreñ
    magar maiñ apnī manzil taraf baḌhtā jaatā huuñ
    hukūmat ke mazāhir jañg ke pur-haul naqshe haiñ
    kudāloñ ke muqābil top bandūqeñ haiñ neze haiñ
    salāsil tāziyāne beḌiyāñ phāñsī ke taḳhte haiñ
    magar maiñ apnī manzil taraf baḌhtā jaatā huuñ
    ufuq par jañg ḳhūnīñ sitāra jagmagātā hai
    har ik jhoñkā havā maut paiġhām laatā hai
    ghaTā ghan-garaj se qalb-e-gītī kaañp jaatā hai
    magar maiñ apnī manzil taraf baḌhtā jaatā huuñ
    fanā ke āhanī vahshat-asar qadmoñ aahaT hai
    dhuveñ badliyāñ haiñ goliyoñ sansanat hai
    ajal ke qahqahe haiñ zalzaloñ gaḌgaḌāhaT hai
    magar maiñ apnī manzil taraf baḌhtā jaatā


    Barsi Par Khasoosi Tehreer:                                                       


             Ahmad Nadeem Qasmi                                                                                                       

    احمد ندیم قاسمی کا کمال یہ ہے کہ وہ محض ایک بڑے شاعر، افسانہ نگار ا صحافی ہی نہیں بلکہ اپنے عہد کی ایک بڑی شخصیت بھی تھے

    احمد شاہ آگے چل کر احمد ندیم قاسمی ہوگئے اور روزنامہ سیاست سے شروعر، ایک ہونے والا ادبی سلسلہ ایک بڑے شاع بڑے افسانہ نگار، ایک اہم نقاد اور ایک جید صحافی کے روپ میں ہم تک پہنچا۔ 13 اگست 1947ء رات بارہ بجے قیامِ پاکستان کا اعلان ہوا تو ریڈیو پاکستان کی نشریات کا آغاز سجاد سرور نیازی کی آواز میں قاسمی صاحب کے لکھے قومی ترانوں ”پاکستان بنانے والے، مبارک ہو“ اور ”ہم مسلمان ہیں، ہم مسلمان ہیں“ سے ہوا۔سجاد سرور نیازی اُس وقت ریڈیو پاکستان پشاور کے ڈائریکٹر تھے۔اردو اور خصوصاً اردو ادب کا ایک سرسری سا جائزہ لیں تو ہمیں کئی پرکشش شخصیات نظر آتی ہیں، کئی بڑے ادیب ملتے ہیں۔ لیکن یہ دونوں خصوصیات کسی ایک انسان میں خال خال ہی ملتی ہیں۔ احمد ندیم قاسمی کا کمال یہ ہے کہ وہ محض ایک بڑے شاعر، افسانہ نگار اور صحافی ہی نہیں بلکہ اپنے عہد کی ایک بڑی شخصیت بھی تھے۔انہوں نے نواردانِ سخن کی تربیت اور بھرپور پذیرائی کے ساتھ ساتھ خود اچھا اور بڑا اَدب بھی تخلیق کیا۔ قاسمی صاحب کی شخصی اور ادبی زندگی پر غور کیا جائے تو سمجھ نہیں آتی کہ کس پہلو پر بات کی جائے اور کسے نظر انداز کیا جائے۔قاسمی صاحب اول اول ترقی پسند تحریک سے وابستہ رہے۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ وہ ساری زندگی اسی نظریہ پر کاربند رہے لیکن ان کی شاعری کا بغور مطالعہ ان کے کلیتاً ترقی پسند ہونے کی نفی کرتا ہے۔دیکھا جائے تو قاسمی صاحب نے ڈٹ کر کسی بھی نظریہ کی وکالت نہیں کی اور اس کی بنیادی وجہ شاید یہ ہو کہ کسی ایک نظریہ پر کاربند رہنے والے عمر بھر اسی کا طواف کرتے رہتے ہیں۔ یوں ادبی تخلیقات میں تنوع مفقود ہو جاتا ہے۔ ایک ترقی پسند نظریہ ہی کو دیکھ لیں.... فیض احمد فیض سمیت دیگر ترقی پسند شعرا کا کلام اُٹھا کر دیکھ لیں۔ فیض صاحب کی ترقی پسندی پھر ایک معقول دائرے میں گردش کرتی نظر آتی ہے اور اس کی بنیادی وجہ ان کا دھیما لہجہ ہے، ورنہ دیگر ترقی پسند شعرا کے ہاں تو پیالی میں اٹھتے طوفان والی بات ہے۔کوئی لاش دیکھ لی تو اس پر شعر کہہ مارا، کہیں گولی چلی تو اس کو موضوعِ سخن بنا لیا۔ اخبار میں فاقے کے باعث کسی کی موت کی خبر دیکھ لی، تو اس پر نظم کہہ ڈالی۔ ترقی پسند شاعری تھی کیا، ایک ابال، ایک وقتی جوش اور بس! شعر سوچنے پر مجبور کرتا ہے لیکن ترقی پسندی کے تحت کہے جانے والے اشعار کو اخباری خبر کی طرح پڑھا، سنا گیا اور خبر کی زندگی کتنی ہوتی ہے، ہم بہ خوبی جانتے ہیں۔ترقی پسند ادب کا محض واقعاتی ادب بن جانے کا بنیادی سبب ترقی پسند شعراء کے مزاج میں سطحی پن کا غالب ہونا تھا۔ فیض صاحب کے ہاں ہمیں اس ترقی پسندی کی ایک Refined Formملتی ہے اور اسی باعث ان کی شاعری دل کو بھی لگتی ہے۔ لیکن احمد ندیم قاسمی کہ جن کو ترقی پسند نعت کہنے کے باعث ایک ترقی پسند ادیب کے درجے پر فائز کرتے ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کرتے چلے آئے ہیں، کا معاملہ اور آگے تک چلتا نظر آتا ہے، ان کی شاعری میں، ابتدا کی چند تخلیقات چھوڑ کر، واقعاتی اور سطحی پن کہیں نظر نہیں آتا۔
    قاسمی صاحب کی شاعری ایک سوچنے، سمجھنے والے انسان کی شاعری ہے۔ اسی لیے یہ شاعری قاری کو بھی سوچنے پر مجبور کرتی ہے۔ان کے اشعار ”سنتے ہی دل میں جو اتر جائیں“ جیسے کلیوں پر پورے نہیں اترتے کہ ان کے نزدیک شاعری محض تفریح کی کوئی چیز نہیں۔ شاعر نے معاشرے میں ایک مثبت کردار ادا کرنا ہوتا ہے اور شاعر کو یہ منصب ودیعت ہوا ہے۔ احمد ندیم قاسمی نے اپنے افسانوں، شاعری اور تنقید میں اس منصب کو بخوبی نبھایا۔
    قاسمی صاحب کی شاعری اور افسانوں کا بنیادی موضوع انسان ہے۔ لیکن انسان کو اپنا موضوع بناتے ہوئے بھی وہ ترقی پسندوں کے انسان اور ان کے انسان کے مسائل سے کوسوں دور رہے کہ اُدھر سطحیت کا دور دورہ تھا اور اِدھر طبیعت میں ایک ٹھہراؤ، ایک متانت تھی، ایک مصلح اور ایک ذمہ دار معاشرے کا ذمہ دار فرد تھا۔ احمد ندیم قاسمی کا انسان محض احمد ندیم قاسمی نہیں، ان کے اپنے معاشرے، اپنے شہر اور اپنے ملک کا انسان نہیں، ان کا انسان تو پوری دنیا کا انسان ہے.... قدیم سے حال تک کا انسان۔ان کا انسان جن مسائل سے دوچار ہے، وہ عام زندگی سے لے کر سیاسی، سماجی، اقتصادی اور نفسیاتی فکر کو محیط ہیں۔ اور پھر یہ انسانی مسائل فلسفے، تصوف اور مابعدالطبیعیاتی فکر تک جا پہنچتے ہیں۔ ان کا چیزوں کو دیکھنے اور بعدازاں ان کا تجزیہ کرنے کا ایک اپنا اور ازحد منفرد انداز ہے۔ ان کی آپ بیتی جگ بیتی بن کر قاری کے فکر میں ارتعاش پیدا کرتی ہے، اسے ہر معاملہ میں غور و فکر کی دعوت دیتی ہے۔ان کے افسانوں میں دیہی زندگی اور رائج معاشرت میں انسانی نفسیات کی بھول بھلیوں کے تجزیات بکثرت ملتے ہیں۔ احمد ندیم قاسمی انسان کو حسن، رنگ، صدا اور مسلسل ارتقا کہتے ہیں۔احمد ندیم قاسمی اپنی ذات میں ایک ادبی تحریک، ایک ادبی ادارہ تھے۔ ان کی زندگی میں ان پر بہت کام ہوا لیکن اس ”بہت“ میں ہمیشہ ان کی شخصیت غالب رہی، ان کے فن کی طرف زیادہ توجہ نہیں کی گئی۔اسی بات کو وسیع تر تناظر میں دیکھا جائے تو ان کے فن پر جس قدر بحث ہوئی اس میں ان کا افسانہ غالب رہا، شاعری پر کام ہوا تو ترقی پسندی کا لیبل لگا کر ان کی نظموں کو موضوعِ بحث بنایا گیا۔ ان کی غزل کی طرف مناسب انداز میں توجہ نہیں کی گئی۔ لیکن ان کی وفات کے بعد تو یہ سلسلہ بھی اختتام پذیر ہو گیا۔ لیکن سچی بات یہ ہے کہ قاسمی صاحب کی نظم، غزل، افسانہ، تنقید اور کالم نگاری ایسی نہیں کہ انہیں اتنی جلدی فراموش کر دیا جائے۔اور گزرتے وقت کے ساتھ نقاد خود اس طرف مائل ہوں گے کہ وقت بہت بڑا منصف ہے۔ قاسمی صاحب کی غزل سے چند اشعار کے ساتھ بات ختم کرنا چاہوں گا: جنوری 1931ء میں مولانا محمد علی جوہر کی وفات پر روزنامہ ”سیاست “ کے سرورق پرایک نوجوان شاعر احمد شاہ کی پہلی نظم شائع ہوئی جس نے اربابِ فکر و فن کو اپنی طرف متوجہ کیا۔ اس وقت احمد شاہ کی عمر محض پندرہ برس تھی۔ بعدازاں روزنامہ ”انقلاب“ اور روزنامہ” زمیندار“ میں شائع ہونے والی نظمیں احمد شاہ کی غیر معمولی شہرت کا باعث ہوئیں۔


    Post a Comment

    0 Comments